آخری بار جب ملے ہم لوگ – اسامہ آزاد کی غزل

غزل

 

آخری بار جب ملے ہم لوگ

شہر میں ہر جگہ دکھے ہم لوگ

 

بات ہوتی نہیں تھی آپس میں

پھر بھی اک دوسرے کے تھے ہم لوگ

 

اس نے محفل میں بیٹھنا تھا جہاں

اس طرف دیکھتے رہے ہم لوگ

 

ایک نمبر سے کال کیا آئی

رات بھر جاگتے رہے ہم لوگ

 

رہنما راہ میں فرار ہوا

یونہی اک سمت چل دیے ہم لوگ

(اسامہ آزاد)

یہ بھی دیکھیں

تری جدائی کا دل کو ملال ہے، سو ہے – جان کاشمیری کی غزل

ان کو نہیں شعور کہ وہ کیا خرید لائے – حسن عباس رضا کی غزل

اُسے گماں بھی نہیں تھا کہ ہم اُسی کے ہیں – اسلم انصاری کی غزل

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

برائے مہربانی شئیر کا آپشن استعمال کیجیے