ایک گاؤں کی یاد میں – شناور اسحاق کی نظم

آؤ یاد کریں
ان پگڈنڈیوں کو
جنہیں کھیتوں میں شامل کر لیا گیا!
ان لڑکیوں کو
اچانک جن کی شادیاں کر دی گئیں!
ان نئی نویلی دلہنوں کو
جن کے بچے ہمارے دیکھتے دیکھتے جوان ہو گئے!
آؤ یاد کریں
ان خوبرو مہمانوں کو
جن کی آمد و رفت آہستہ آہستہ ختم ہو گئی!
ان دھڑکنوں کو
جنہیں لاج کے معنی معلوم تھے!
ان کلف لگی سفید پگڑیوں کو
جن سے راتیں اور باراتیں منور ہو جاتی تھیں!
آؤ یاد کریں
اس تندور کو
جہاں ایک بوڑھی عورت
روٹیوں پر پھول کاڑھا کرتی تھی!
آؤ یاد کریں
اس گاؤں کو
جسے گاؤں والے بھول گئے ہیں!!!

یہ بھی دیکھیں

اچھے دنوں کی یاد باقی ہے – صفدر سلیم سیال کی نظم

غم کرتے ہیں خوش ہوتے ہیں – قاسم یعقوب کی نظم

لاوطنی کا عفریت – نصیراحمدناصر کی نظم

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

برائے مہربانی شئیر کا آپشن استعمال کیجیے