ساحل سے دور جب بھی کوئی خواب دیکھتے- شکیب جلالی ؔ کی غزل

غزل

 

ساحل سے دور جب بھی کوئی خواب دیکھتے

جلتے ہوئے چراغ تہہِ آب دیکھتے

ہم نے فضول چھیڑ دی زخمِ نہاں کی بات

چپ چاپ رنگِ خندۂ احباب دیکھتے

حالِ فراق و عالمِ دیوانگی نہ پوچھ

ساری ہی رات گذری ہے ماہتاب دیکھتے

فریاد کی مجال کہاں اس کی بزم میں

تارِ نگہ پہ دشنۂ آداب دیکھتے

غم کی سبک سی موج نے جن کو ڈبو دیا

اے کاش وہ بھی حلقۂ گرداب دیکھتے

بیتے دنوں کے زخم کریدے ہیں رات بھر

آئی نہ جن کو نیند وہ کیا خواب دیکھتے

کشکولِ شعر تر لیے پھرتے نہ ہم شکیبؔ

اس ریشمیں بدن پہ جو کمخواب دیکھتے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

برائے مہربانی شئیر کا آپشن استعمال کیجیے