چپ کے عالم میں وہ تصویر سی صورت اس کی- شہزاداحمد کی غزل

غزل

 

چپ کے عالم میں وہ تصویر سی صورت اس کی

بولتی ہے تو بدل جاتی ہے رنگت اس کی

 

سیڑھیاں چڑھتے وہ اچانک ملی تھی مجھ کو

اس کی آواز میں موجود تھی حیرت اس کی

 

ہاتھ چھُو لوں تو لرز جاتی ہے پتے کی طرح

وہی ناکردہ گناہی پہ ندامت اس کی

 

خود وہ آغوش کشادہ ہے جزیرے کی طرح

پھیلے دریاؤں کی مانند محبت اس کی

 

کسی ٹھہری ہوئی ساعت کی طرح مہر بہ لب

مجھ سے دیکھی نہیں جاتی اذیت اس کی

 

آنکھ رکھتے ہو تو اس آنکھ کی تحریر پڑھو

منہ سے اقرار نہ کرنا تو ہے عادت اس کی

 

وہ اگر جا بھی چکی ہے تو نہ آنکھیں کھولو

ابھی محسوس کیے جاؤ رفاقت اس کی

 

بے طلب جینا بھی شہزاد طلب ہے اس کی

زندہ رہنے کی تمنا بھی شرارت اس کی

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

برائے مہربانی شئیر کا آپشن استعمال کیجیے