غزل
ترا اُترا ہوا چہرہ تو دیکھا
چلو ہم نے دِیا بجھتا تو دیکھا
کہاں دیکھا تھا اس سے قبل کچھ بھی
تری آنکھوں میں جب دیکھا تو دیکھا
اُتر آیا تھا اک سیلاب مجھ میں
وہ دریا جب ذرا اُترا تو دیکھا
اگر اب ٹوٹ بھی جائے تو کیا ہے
چلو ہم نے کوئی سپنا تو دیکھا
خفا مت ہو مرے یوں دیکھنے پر
کہ میں کچھ دیکھ سکتا تھا تو دیکھا
کئی مجھ میں مرے جیسے چھپے تھے
مرا آئینہ جب ٹوٹا تو دیکھا
محبت موجزن تھی دل میں ساگر
یہ دریا موج میں آیا تو دیکھا