غزل
خواب ہوئے وہ میخانے اور خواب دکھانے والے لوگ
باقی رہ گئے بس ویرانے اور ڈرانے والے لوگ
ہم سینے میں قبر بنا لیتے ہیں جانے والوں کی
ہم ہیں لمحہ لمحہ غم اور سوگ منانے والے لوگ
کافی آگے نکل گئے ہیں میرے سارے ہم سفراں
اور بہت پیچھے ہیں میرے پیچھے آنے والے لوگ
چنوائے جاتے ہیں آخر کار آبی دیواروں میں
وحشی موجوں سے ہم ایسے سر ٹکرانے والے لوگ
اب تو زینۂ خواب کے ہر اک گام سے واقف ہو گئے ہیں
میری آنکھ سے میرے دل تک آنے جانے والے لوگ
کن لوگوں میں آ بیٹھے ہیں خاموشی کے ہمراہی
کس بستی میں آ نکلے ہم دشت بسانے والے لوگ
آپ ہیں ٹھنڈی میٹھی چھاؤں کے شاداب سفیر اور ہم
دھوپ اگانے والے ہیں یا خاک اڑانے والے لوگ