غزل
دیا سنبھالے ہوئے راستے میں رہ گئے ہیں
ہمارے خواب کہیں طاقچے میں رہ گئے ہیں
یہ عشق مرحلہ در مرحلہ ریاضت ہے
ہمیں خبر نہیں کس مرحلے میں رہ گئے ہیں
وہ خوش جمال مجھے چھوڑ کر چلا تو گیا
پر اس کے رنگ مرے آئنے میں رہ گئے ہیں
جدھر بھی جائیں پلٹ آتے ہیں تری جانب
ہمارے پاؤں اسی دائرے میں رہ گئے ہیں
جنوں کے باب میں گر تذکرہ نہیں، نہ سہی
یہی بہت ہے کہ ہم حاشیے میں رہ گئے ہیں
شائع شدہ سمبل راولپنڈی سالنامہ 2007