یہ کیا کرتے ہو – نویدرضا کی غزل

غزل

 

خواب کے ٹکڑے اٹھاتے ہو یہ کیا کرتے ہو

اک نیا خواب بناتے ہو یہ کیا کرتے ہو

 

ڈھوتے رہتے ہو گئے گزرے دنوں کی یادیں

اس قدر  بوجھ اٹھاتے ہو یہ کیا کرتے ہو

 

بیٹھ جاتے ہو کوئی اور کہانی لے کر

جب اسے سامنے پاتے ہو یہ کیا کرتے ہو

 

کیسے چمکاتے ہو ان بجھتے ہوئے تاروں کو

کس طرح پھول کھلاتے ہو یہ کیا کرتے ہو

 

ہم نے دیکھے ہیں سبھی تیز ہواؤں کے عذاب

ہم چراغوں کو ڈراتے ہو یہ کیا کرتے ہو

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

برائے مہربانی شئیر کا آپشن استعمال کیجیے