غزل
دن ڈھلے تک اپنی کھڑکی میں کھڑی رہتی ہے وہ
کھیلتے بچے گلی میں دیکھتی رہتی ہے وہ
میں معلق ہوں خلا میں جلتے سورج کی طرح
وہ زمیں ہے گرد میرے گھومتی رہتی ہے وہ
اُس کی بوجھل آنکھ سے چھُو کر گزر جاتی ہے نیند
رات سو جاتی ہے لیکن جاگتی رہتی ہے وہ
رکھ کے میرے خط کسی کُنج تغافل میں کہیں
پاگلوں کی طرح گھر میں ڈھونڈتی رہتی ہے وہ
پالتو بلی کو لے کر اپنی بانہوں میں نجیب
انگلیاں اس کے بدن پر پھیرتی رہتی ہے وہ