غزل
چلو مانا کہ یہ سب کچھ کہانی سے زیادہ کچھ نہیں تھا
بچھڑتے دم مری آنکھوں میں پانی سے زیادہ کچھ نہیں تھا
مرا دل اس متاع عمر کی خاطر ہے فرش راہ لیکن
ترا بخشا ہوا غم اک نشانی سے زیادہ کچھ نہیں تھا
اگر جیون ہے رستہ خواب کی تعمیر سے تعبیر تک کا
تو اس میں ساتھ تیرا مہربانی سے زیادہ کچھ نہیں تھا
بہت خوش رنگ سے اک خواب کی مقروض ٹھہریں جب یہ آنکھیں
چکانے کے لیے اس زندگانی سے زیادہ کچھ نہیں تھا
دل خوش فہم نے امکان سے ویران ہونے تک کی رت میں
جو سوچا تھا فقط اک خوش گمانی سے زیادہ کچھ نہیں تھا
تو اپنا آپ آخر بے جواز و بے سبب لگتا ہے کیوں،گر
پس ترک تعلق رائیگانی سے زیادہ کچھ نہیں تھا