غزل
کبھی خوشی سے خوشی کی طرف نہیں دیکھا
تمہارے بعد کسی کی طرف نہیں دیکھا
یہ سوچ کر کہ ترا انتظار لازم ہے
تمام عمر گھڑی کی طرف نہیں دیکھا
یہاں تو جو بھی ہے آبِ رواں کا عاشق ہے
کسی نے خشک ندی کی طرف نہیں دیکھا
وہ جس کے واسطے پردیس جا رہا ہوں میں
بچھڑتے وقت اُسی کی طرف نہیں دیکھا
نہ روک لے ہمیں روتا ہوا کوئی چہرہ
چلے تو مڑ کے گلی کی طرف نہیں دیکھا