تمہارے بعد کسی کی طرف نہیں دیکھا – منوررانا کی غزل

غزل

 

کبھی خوشی سے خوشی کی طرف نہیں دیکھا

تمہارے بعد کسی کی طرف نہیں دیکھا

 

یہ سوچ کر کہ ترا انتظار لازم ہے

تمام عمر گھڑی کی طرف نہیں دیکھا

 

یہاں تو جو بھی ہے آبِ رواں کا عاشق ہے

کسی نے خشک ندی کی طرف نہیں دیکھا

 

وہ جس کے واسطے پردیس جا رہا ہوں میں

بچھڑتے وقت اُسی کی طرف نہیں دیکھا

 

نہ روک لے ہمیں روتا ہوا کوئی چہرہ

چلے تو مڑ کے گلی کی طرف نہیں دیکھا

یہ بھی دیکھیں

تری جدائی کا دل کو ملال ہے، سو ہے – جان کاشمیری کی غزل

ان کو نہیں شعور کہ وہ کیا خرید لائے – حسن عباس رضا کی غزل

اُسے گماں بھی نہیں تھا کہ ہم اُسی کے ہیں – اسلم انصاری کی غزل

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

برائے مہربانی شئیر کا آپشن استعمال کیجیے