غزل
ریل نے سیٹی بجائی چل پڑی
ہر طرف بادِ جدائی چل پڑی
جس طرف میں نے بنایا راستہ
اُس طرف ساری خدائی چل پڑی
رک گئی تھی اک جگہ گاڑی مری
بس دعا سے مرے بھائی چل پڑی
وسوسوں نے گھیر رکھا دیر تک
یاد آئی نیند اڑائی چل پڑی
اور پھر میں دیکھتا ہی رہ گیا
وہ مرے نزدیک آئی چل پڑی