غزل
میں آئینے کی طرح ہوں مگر غبار نصیب
مجھے کہاں کسی چہرے کا اعتبار نصیب
ہر اک کلی کو میسر کہاں خراج نمو
ہر ایک گل کا ستارہ کہاں بہار نصیب
ہر ایک لمحہ بچھڑ جاتا ہے کوئی مجھ سے
میں ایک راہگذر میرا انتظار نصیب
ہے ایک آگ جو بجھتی سلگتی رہتی ہے
تمہارے چاہنے والوں کو کب قرار نصیب
مرا نہیں جسے خود سے زیادہ چاہتا ہوں
ہزار بار ہو تجھ پر خدا کی مار نصیب