چاہا تھا ایک شخص کو جانے کدھر چلا گیا- حسن کمال کی غزل

غزل

 

آنکھوں کو انتظار دے کے ہنر چلا گیا

چاہا تھا ایک شخص کو جانے کدھر چلا گیا

 

راتوں کے رتجگے گئے دن کی وہ محفلیں گئیں

کوئی سمیٹ کر مرے شام و سحر چلا گیا

 

کوچہ بہ کوچہ در بدر کب سے بھٹک رہا ہے دل

مجھ کو بھلا کے راہ وہ اپنی ڈگر چلا گیا

 

پوچھیے سچ تو آج بھی دل سے نہیں ہے دور وہ

ہاتھ چھڑا کے کیا ہوا کوئی اگر چلا گیا

 

جھونکا ہے اک بہار کارنگ خیال یار بھی

ہر سو بکھر بکھر گئی خوشبو جدھر چلا گیا

 

اس کے ہی دم سے دل میں آج دھوپ بھی ہے چاندنی بھی ہے

دے کے وہ اپنی یاد کے شمس و قمر چلا گیا

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

برائے مہربانی شئیر کا آپشن استعمال کیجیے