خوشبوؤں میں نہائی ہوئی لڑکیاں، شہر کی لڑکیاں
آپ ہی پھول ہیں، آپ ہی تتلیاں، شہر کی لڑکیاں
میری آنکھوں کی گلیوں میں بکھرے ہوئے زندگی کے نشاں
اونچے نیچے مکاں، ادھ کھلی کھڑکیاں، شہر کی لڑکیاں
گاؤں کی گوریو! مردوزن کی کہانی پرانی ہوئی
کر رہی ہیں مرتب نئی داستاں، شہر کی لڑکیاں
ان دیاروں میں بھی کوئی آباد تھا کس کو معلوم ہے
اب تو ہیں صرف اجڑی ہوئی بستیاں، شہر کی لڑکیاں
لوگ تکتے بھی ہیں اور پڑھتے بھی ہیں پھر بھی کڑھتے نہیں
خالی سڑکوں پہ اڑتی ہوئی پرچیاں، شہر کی لڑکیاں
تُو بھی فاضل جمیلی نہ ہونے کے دکھ سے نکل کر تو دیکھ
اپنے ہونے پہ ہیں کس قدر بد گماں، شہر کی لڑکیاں