جس طرح بھی ہو محبت سے نکلنا ہے مجھے – بلال شافی کی غزل

غزل

 

خواب در خواب مصیبت سے نکلنا ہے مجھے

یعنی خود اپنی شکایت سے نکلنا ہے مجھے

 

اتنا آساں تو نہیں اس سے نکلنا لیکن

جس طرح بھی ہو محبت سے نکلنا ہے مجھے

 

یوں مقفّل ہوا بیٹھا ہوں کسی کمرے میں

جیسے کمرے کی اجازت سے نکلنا ہے مجھے

 

چھوڑ آیا ہوں ترے شہر  میں آنکھیں اپنی

اب کسی اور اذیت سے نکلنا ہے مجھے

 

بے وجہ دشمنوں پہ ٹوٹ رہا ہوں شافیؔ

اور اپنوں کی حراست سے نکلنا ہے مجھے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

برائے مہربانی شئیر کا آپشن استعمال کیجیے