ہونٹوں پر خاموشیاں، آنکھوں میں ویرانیاں- اسلم کولسری غزل

غزل

 

ہونٹوں پر خاموشیاں، آنکھوں میں ویرانیاں

ہوں گی ترے شہر کی شامیں بڑی سہانیاں

 

دل کے کلر شور میں، اجڑے ہوئے بھنبھور میں

زندہ ہیں اس گور میں، سب یادیں مر جانیاں

 

ہلکے پیلے ماس کے، جیسے پھول کپاس کے

کیا کیا پنڈے کھا گئیں، ڈھلتی ہوئی جوانیاں

 

تیرے سنگ تھیں گاؤں میں، دل کی دھوپ اور چھاؤں میں

برکھا رُت کی برکتیں، ساون کی سلطانیاں

 

صدمے- جیسے شہر کے گبھرو بے حس قہر کے

یادیں- جیسے گاؤں کی سہمی ہوئی سوانیاں

 

کچھ باتیں بے حرف سی اور یہ راتیں برف سی

چھوڑی ہیں اس شوخ نے یہی نفیس نشانیاں

 

دل کا بوجھ اتاریئے، دشت بہ دشت پکاریئے

سوہنئے، ہیریئے، ناریئے، سجناں، بلما، ہانیاں

 

محفل میں دلدار کی، غزلیں اسلم یار کی

جیسے پورے چاند کےمیلے میں مستانیاں

یہ بھی دیکھیں

تری جدائی کا دل کو ملال ہے، سو ہے – جان کاشمیری کی غزل

ان کو نہیں شعور کہ وہ کیا خرید لائے – حسن عباس رضا کی غزل

اُسے گماں بھی نہیں تھا کہ ہم اُسی کے ہیں – اسلم انصاری کی غزل

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

برائے مہربانی شئیر کا آپشن استعمال کیجیے