اپنے ہی انتظار میں بیٹھا ہوا ہوں میں – امجد شہزاد کی غزل

غزل

 

یہ کب کسی کا راستہ تکتا ہوا ہوں میں

اپنے ہی انتظار میں بیٹھا ہوا ہوں میں

 

میرے لیے عبث ہی گھلے جا رہا ہے تُو

جب چاہے آ کے دیکھ لے، ہنستا ہوا ہوں میں

 

میرے قریب مجھ سا کوئی بھی نہیں رہا

اپنے قریب اس لیے ہوتا ہوا ہوں میں

 

اے زندگی ذرا سی سہولت دے مجھے

کب سے تری گرفت میں آیا ہوا ہوں میں

 

اے رہ گذارِ عشق، مجھے ساتھ لے کے چل

اس دشتِ بے کنار میں بھٹکا ہوا ہوں میں

 

دنیا تغیرات کی زد میں ہے مستقل

کیسا تھا اور دیکھ لے کیسا ہوا ہوں میں

 

امجد مجھے سنبھال کے رکھنا زمین پر

مشکل سے اپنی ذات میں یکجا ہوا ہوں میں

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

برائے مہربانی شئیر کا آپشن استعمال کیجیے