کس قدرپرانے ہیں، ہم نئے زمانے میں- عالم خورشید کی غزل

غزل

 

لطف ہم کو آتا ہے اب فریب کھانے میں

آزمائے لوگوں کو روز آزمانے میں

 

دو گھڑی کے ساتھی کو، ہم سفر سمجھتے ہیں

کس قدرپرانے ہیں، ہم نئے زمانے میں

 

احتیاط رکھنے کی کوئی حد بھی ہوتی ہے

بھید ہم نے کھولے ہیں، بھید کو چھپانے میں

 

تیرے پاس آنے میں نصف عمر گزری ہے

نصف عمر گزرے گی، تجھ سے دُور جانے میں

 

زندگی تماشہ ہے اور اس تماشے میں

کھیل ہم بگاڑیں گے، کھیل کو بنانے میں

 

کارواں کو اس کا بھی کچھ خیال آتا ہے

جو سفر میں بچھڑے ہیں راستہ بنانے میں

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

برائے مہربانی شئیر کا آپشن استعمال کیجیے