مجھے کیا کرنا چاہیے – ابرار احمد کی نظم

مجھے کیا کرنا چاہیے
تمہارے بعد
مجھے کیا سوچنا چاہیے
اُن دنوں کو
جب سڑکوں پر گھومتے ہوئے
میرے گانے پر تم ماچس بجایا کرتے تھے
یا جب میرے سوال کو تم
ہنسی میں اُڑاتے ہوئے کہہ دیتے
”تم ابھی Below 40 ہو‘‘
یا پھر اُن گھروں کو نکل جانا چاہیے
ایک آخری نظر ڈالنے کو
جن کی مٹی میرے اندر اُڑتی ہے
یا خاک کی ڈھیریوں کے جوار میں
جہاں اپنے وجود کے مزید بے معنی ہونے کا
یقین مل سکے؟
کیا مجھے کوئی نوحہ لکھنا چاہیے
کہ تمہاری وضعداریوں پر
پڑنے والی ضربوں کی طرح
میری محبت کا خواب بھی ٹوٹ چکا؟
موت کی جانب ہماری پیش قدمی
محض چار قدم کے فرق سے
مسلسل جاری رہی ہے
تو کیا میں یہ فاصلہ بھاگ کر ختم کر دوں؟
سمجھ نہیں آتی میں یہاں رُکنا چاہتا ہوں
اور نہیں چاہتا، ایک آدھ رہ جانے والا کام
کیے بغیر ہی بھاگ نکلوں؟
میں تمہاری طرح ہارنا بھی نہیں چاہتا
حالانکہ یہ ایسی جنگ بھی نہیں
جس میں، میرے پاس
کوئی ہتھیار موجود ہو
سوائے دنیا سے شدید کمینی محبت کے۔۔۔
ہزیمت کے دنوں کے بعد
ہم دو ہارے جواریوں کی طرح
بے زبان ہو گئے
فون کے دوسرے کنارے پر
خاموشی ہے
مجھے کچھ سمجھ نہیں آ رہی
اسے پٹخ دوں
یا کان سے لگائے رکھوں۔۔۔۔؟

یہ بھی دیکھیں

اچھے دنوں کی یاد باقی ہے – صفدر سلیم سیال کی نظم

غم کرتے ہیں خوش ہوتے ہیں – قاسم یعقوب کی نظم

لاوطنی کا عفریت – نصیراحمدناصر کی نظم

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

برائے مہربانی شئیر کا آپشن استعمال کیجیے