شام ہے- ذیشان ساحل کی نظم

شام ہے
میری آنکھوں میں دیکھا
تو اس نے کہا

میں نے دیکھا
تو چاروں طرف دھوپ تھی
صبح کے رنگ تھے
اور کہیں سائے میں
کونپلوں پر چمکتی ہوئی
اوس تھی
دور تک آسماں پر
کوئی ابرپارہ نہ تھا
اس کی آنکھوں میں
کوئی ستارا نہ تھا
کونپلیں خشک تھیں
پیڑ بے رنگ تھے
میرے چاروں طرف
دھوپ ہی دھوپ تھی
اس کی آنکھوں میں دیکھا تو
میں نے کہا
شام ہے
شام ہے!!!

یہ بھی دیکھیں

اچھے دنوں کی یاد باقی ہے – صفدر سلیم سیال کی نظم

غم کرتے ہیں خوش ہوتے ہیں – قاسم یعقوب کی نظم

لاوطنی کا عفریت – نصیراحمدناصر کی نظم

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

برائے مہربانی شئیر کا آپشن استعمال کیجیے