اُسے کیا خبر ہے – راجہ محمد ریاض الرحمن کی نظم

اُسے کیا خبر ہے؟
اُسے کیا خبر ہے ہمارے سسکتے دنوں کی کہانی کا مرکز وہی ہے
اُسے کیا خبر ہے ہوا تیز ہے اور چٹان ریزگی کے الم سہہ رہی ہے
اُسے کیا خبر ہے کہ سینے کے اندر خلا ہے، خلا تو مکمل سزا ہے
اُسے کیا خبر ہے کہ اُس شام یونہی جو ہم رو پڑے تھے تو کیوں رو پڑے تھے
اُسے کیا خبر ہے ہماری ترستی نگاہوں کی آسودگی ہے فقط ایک جھلکی پلک کی جھپک تک
اُسے کیا خبر ہے کہ صبر ایک سِل ہے جسے آج چھاتی پہ رکھے برس ہو گئے ہیں
اُسے کیا خبر ہے کہ ذات اور محبت کی تکرار کے ختم ہونے کی کوئی بھی صورت نہیں
اُسے کیا خبر ہے کہ خاکی بدن موم بتی کی صورت سلگنے لگا ہے پگھلنے لگا ہے
اُسے کیا خبر ہے بدن کی شکست اور اُدھڑتے سویٹر کا کیا ماجرا ہے
اُسے کیوں خبر ہو، ہمارا اور اُس کا تعلق ہی کیا ہے؟

یہ بھی دیکھیں

اچھے دنوں کی یاد باقی ہے – صفدر سلیم سیال کی نظم

غم کرتے ہیں خوش ہوتے ہیں – قاسم یعقوب کی نظم

لاوطنی کا عفریت – نصیراحمدناصر کی نظم

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

برائے مہربانی شئیر کا آپشن استعمال کیجیے