میں کہاں ہوں – نوید حیدر هاشمی کی نظم

میں کہاں ہوں۔۔۔؟

میں تیرے شہر میں پہلے پہل جب آیا کرتا تھا
ہوائیں مجھ سے کہتی تھیں”جی آیاں نُوں”
زمیں قدموں پہ بوسہ دے کے کہتی تھی
سلام اے دُور سے آئے مسافر
تصور میں مرے سینے پر سر رکھ کر تُو کہتی تھی
میں تیری راہ میں پلکیں بچھا دُوں۔۔۔؟
فضا کہتی ترے ماتھے پہ بوسہ دُوں۔۔۔؟
شجر کی جھُومتی شاخیں بھی استقبال کرتیں
اور پرندے گیت گاتے
جب تری باتیں سناتے
تو ہواؤں میں مجھے تری نمی محسوس ہوتی
پھر مجھے سورج کی کرنیں کان میں آ کر ترا سندیسہ دیتیں
میں تری مجبور سی آواز کو سینے پہ رکھ کر سانس لیتا اور تجھے محسوس کرتا
ہاں! مجھے لگتا کہ سارا شہر
تیرا عکس بن کر مجھ کو”ویلکم” کہہ رہا ہے

آج میں آیا ہوں تیرے شہر میں لیکن ہوا خاموش ہے
شاخیں، پرندے اور زمیں کچھ بھی نہیں بولے
نہ سورج مسکرایا اور فضا بھی چپ کھڑی ہے
ریلوے اسٹیشن کے کمرے آج مجھ پر ہنس رہے ہیں
ریل گاڑی جا چکی ہے اور میں خود کو یہاں
بکھرے ہوئے سامان کے مانند اکٹھا کر رہا ہوں۔۔۔!
میں کہاں ہوں۔۔۔؟
میں کہاں ہوں۔۔۔؟

یہ بھی دیکھیں

اچھے دنوں کی یاد باقی ہے – صفدر سلیم سیال کی نظم

غم کرتے ہیں خوش ہوتے ہیں – قاسم یعقوب کی نظم

لاوطنی کا عفریت – نصیراحمدناصر کی نظم

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

برائے مہربانی شئیر کا آپشن استعمال کیجیے