مصلحت
بچھڑنے والے
اپنے حصے کے خواب لے کر
تم تو موجِ ہوا ہوئے ہو
جدا ہوئے ہو
مگر میں کب سے
گزشتہ لمحوں کی راکھ میں گُم
اپنی صدیوں کو چُن رہا ہوں
میں سُن رہا ہوں
ہوائیں، پربت، پہاڑ، پنچھی
دشائیں مجھ سے یہ کہہ رہی ہیں
سلگتی سانسوں کی سسکیوں میں
بکھرتے لمحوں کے تار بُنتے
گزرتے دن کی پکار سنتے
کسی نظم سے اداس لڑکے!!
ہماری مانو تو مان لو تم
گزشتہ رُت کے تمام ہی دُکھ
جو اپنے دل سے
نچوڑ دو گے تو خوش رہو گے
عذاب بَنتی تمام یادوں کے
تلخ دھاگوں کو
توڑ دو گے تو خوش رہو گے
بھٹکتے رہنے کی خواہشوں کو
جو چھوڑ دو گے تو خوش رہو گے!!