تم مجھے کہیں رکھ کر بھول گئے ہو – فاطمہ حسن کی نظم

تم مجھے کہیں رکھ کر بھول گئے ہو

 

کاغذ کے ڈھیر میں ایک وزیٹنگ کارڈ کی طرح
تم مجھے رکھ کر بھول گئے ہو
گھر کے فرنیچر، قالین، دیواروں پر لگی
تصویروں کے ساتھ تمہاری نظریں مجھ
پر سے بھی گزر جاتی ہیں
کسی بینک میں کھولے جز وقتی اکاؤنٹ
پڑھی ہوئی کتاب، ادھ لکھی ڈائری کی طرح
میں بھی کہیں موجود ہوں

شاید مجھے بھول جانا بہتر ہے
تاش کی ہاری ہوئی بازی
شطرنج کی بساط پر کھائی ہوئی
مات کی طرح

یہ بھی دیکھیں

اچھے دنوں کی یاد باقی ہے – صفدر سلیم سیال کی نظم

غم کرتے ہیں خوش ہوتے ہیں – قاسم یعقوب کی نظم

لاوطنی کا عفریت – نصیراحمدناصر کی نظم

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

برائے مہربانی شئیر کا آپشن استعمال کیجیے