پنچھی تے پردیسی- بشریٰ اعجاز کی نظم

پنچھی تے پردیسی

پرندے اور پردیسی کبھی واپس نہیں آتے
جلا وطنوں کے پاؤں کے تلے
دھرتی بڑی کمزور ہوتی ہے
کبھی رستہ نہیں ہوتا
کبھی سایہ نہیں ہوتا
شجر کی آرزوئیں
دھوپ کے آنسو بہاتی ہیں
مگر بارش نہیں ہوتی

پرندے اور پردیسی کبھی واپس نہیں آتے
دعائیں گٹھڑیوں میں باندھ کر
چوکھٹ پہ بیٹھی
ماؤں کےپتھر وجودوں پر
کبھی سبزہ نہیں اُگتا

پرندے اور پردیسی
اگر واپس کبھی آئیں تو سارے لوک گیتوں، داستانوں
اور مٹی میں امانت کی ہوئی آنکھوں کو
!اپنے ساتھلے جائیں۔۔۔

بشریٰ اعجاز

یہ بھی دیکھیں

اچھے دنوں کی یاد باقی ہے – صفدر سلیم سیال کی نظم

غم کرتے ہیں خوش ہوتے ہیں – قاسم یعقوب کی نظم

لاوطنی کا عفریت – نصیراحمدناصر کی نظم

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

برائے مہربانی شئیر کا آپشن استعمال کیجیے