قصباتی لڑکوں کا گیت – ابرار احمد کی نظم

قصباتی لڑکوں کا گیت
ہم تیری صبحوں کی اوس میں
بھیگتی آنکھوں کے ساتھ
دلوں کی اس بستی کو دیکھتے ہیں
ہم تیرے خوش الحان پرندے ، ہر جانب
تیری منڈیریں گاتے ہیں
ہم نکلے تھے تیرے ماتھے کے لئے
بوسہ ڈھونڈنے
ہم آئیں گے بوجھل قدموں کے ساتھ
تیرے تاریک حجروں میں پھرنے کے لئے
تیرے سینے پر
اپنی اکتاہٹوں کے پھول بچھانے
سر پھری ہوا کے ساتھ
تیرے خالی چوباروں میں پھرنے کے لئے
تیرے صحنوں میں اُٹھتے دھوئیں کو
اپنی آنکھوں میں بھرنے
تیرے اُجلے بچوں کی میلی آستینوں سے
اپنے آنسو پونچھنے
تیری کائی زدہ دیواروں
سے لپٹ جانے کو
ہم آئیں گے
نیند اور بچپن کی خوشبو میں سوئی
تری راتوں کی چھتوں پر
اجلی چارپائیاں بچھانے
موتیے کے پھولوں سے پرے
اپنی چیختی تنہائیاں اُٹھانے
ہم لوٹیں گے تیری جانب
اور دیکھیں گے تیری بوڑھی اینٹوں کو
عمروں کے رتجگے سے دکھتی
آنکھوں کے ساتھ
اونچے نیچے مکانوں میں
گھرے، گزشتہ کے گڑھے میں
ایک بار پھر گرنے کے لئے
لمبی تان کرسونے کے لئے
ہم آئیں گے
تیرے مضافات میں مٹی ہونے
کے لئے!

یہ بھی دیکھیں

اچھے دنوں کی یاد باقی ہے – صفدر سلیم سیال کی نظم

غم کرتے ہیں خوش ہوتے ہیں – قاسم یعقوب کی نظم

لاوطنی کا عفریت – نصیراحمدناصر کی نظم

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

برائے مہربانی شئیر کا آپشن استعمال کیجیے