مجھے اچھے لگتے ہیں – ابرار احمد کی نظم

مجھے اچھے لگتے ہیں

مجھے اچھے لگتے ہیں
بادل۔۔۔۔ جب وہ برستے ہیں
 اور آنکھیں
 جن میں کوئی بھی بسیرا کر سکتا ہے
بکریاں اور بچے
 جو سڑک پار کر جاتے ہیں
 اور نہیں دیکھ پاتے اُس آہنی ہاتھ کو
 جو ان کے تعاقب میں دوڑا چلا آتا ہے
مجھے اچھے لگتے ہیں
 فراغت اور دکھ سے بھرے دن
 اور راتیں
 جب دور دور تک بارش ہوتی ہے
اور آبائی مکانوں کی وہ شام
 جب بہنوں کو رخصت کیا جاتا ہے
پہاڑ کے پار کے اندھیارے کی جانب
 آنسو اور دُھند۔۔۔۔ جن میں صاف
 دیکھا جا سکتا ہے
 اور وہ دل۔۔۔۔ جنہیں نشانہ بنایا جاتا ہے
 اور مٹی۔۔۔۔ جس کی جانب ہمیں لوٹنا ہے
مجھے اچھے لگتے ہیں
دریچے جن سے ہوا گزرتی ہے
 دروازے جو کبھی بند نہیں ہوتے
اور دوست جن کے کاندھوں پر
ہمیشہ ہاتھ رکھا جا سکتا ہے
اور تم۔۔۔۔
 لپکتے ہوئے ہاتھوں اور دنیا کے درمیان
کیا کچھ موجود ہے!

یہ بھی دیکھیں

آدمی بھول جاتا ہے – ابرار احمد کی نظم

آدمی بھول جاتا ہے بھول جاتا ہے آدمی وہ وقت جب اس کا دل دکھایا …

ہماری یاد کا قصہ – ابراراحمد کی نظم

ہماری یاد کا قصہ فون پر ہونے والی گفتگو جو ابھی ابھی ختم ہوئی ہے …

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

برائے مہربانی شئیر کا آپشن استعمال کیجیے