آدمی بھول جاتا ہے – ابرار احمد کی نظم

آدمی بھول جاتا ہے

بھول جاتا ہے آدمی
وہ وقت جب اس کا دل دکھایا گیا
کاری ضرب لگائی گئی
اور وہ کچھ بھی نہ کر سکا
یا پھر—-جب اسے دعاؤں سے لاد کر
محبتوں میں شرابور کر دیا گیا
راہ میں آنکھیں بچھائی گئیں
اور شادیانے بجائے گئے
یا جب مطالبوں اور شکایتوں کے حصار میں
اسے دن رات گزارنے پڑے
رشتوں کے آرام اور تناؤ کے وسط میں
جب دیوار پر اس کی تصویر لگا کر
اے بھلا دیا گیا!
بھول جاتا ہے رکاوٹیں
یا جب اس کے لیے راستہ چھوڑ دیا گیا
کہیں بھی نہ پہنچ پانے کے لیے
بھول جاتا ہے آدمی
روزی روٹی کے لیے کھائی جانے والی در در کی ٹھوکریں
بخار کے شدید جھٹکے
بھرنے اور خالی ہو جانے والا کیسہ
سر پر لگنے والی ان گنت چوٹیں
منہ کے بل گرنے کے بعد
کپڑے جھاڑ جھاڑ کر، پھر سے گرنے کی تیاریاں
دیکھتا، سہتا اور بھولتا جاتا ہے آدمی
وہ پھول جو اسے پیش کیے گئے
کرسیاں—-جو اس کے نیچے سے کھینچ لی گئیں
وہ ہاتھ، جو غصے یا پیار سے لپکتے رہے
اور اس تک پہنچ نہ پائے
وہ دوست جن سے ملنے کے پروگرام بناتے بناتے
اس نے بہت دیر کر دی
دیکھتا ہے
ٹوٹے ستارے، ڈوبتا سورج، خالی ہوتی ہوئی بستیاں
بکھرتے خواب اور بجھتے چراغوں کی لمبی قطاریں
اور بھول جاتا ہے اجنبیت
جو ساری زندگی اس کے ساتھ رہی
اس زمین پر—-
آدمی بھول جاتا ہے
اس لمحے کو جو ابھی ابھی گزرا
اور جو آنے والا ہے
تیز چلتی گاڑی کی کھڑکی سے گزرتے مناظر کی طرح
بھول جاتا ہے
بیت جانے والے ماہ و سال
کپڑے، جو اس پر سجا کرتے تھے
بستیاں، خوشبوئیں اور لوگ جن سے وہ بغل گیر ہوا
سنتا اور بھلائے رکھتا ہے
اس پار کہیں سے ابھرتے ڈوبتے گیتون کی پکار
اور مٹی کی آواز
جو ہر وقت اسے اپنی جانب بلاتی رہتی ہے
اور پھر—-آہستہ آہستہ بجھتی آنکھوں میں
کہیں اور کے دھندلے مناظر دیکھتے ہوئے
آخری ٹھوکر کے آس پاس
کسی اجنبی آسمان کے نیچے
خاک پر آخری بارشوں سے اٹھنے والی مہک میں
نہیں بھول پاتا
اس آنگن کو
جس میں اس نے اپنے جیسوں کے ساتھ آنکھ کھولی
اور پہلی مرتبہ، طمانیت اور حیرت سے دنیا کو دیکھا
اور—-دہلیز پار کرنے کی وہ ماتمی شام
جب آس پاس، کسی تاریک گوشے سے
کوئی چپکے سے الوداع کہہ رہا تھا
اور کچھ مہربان آنسوؤں بھری آنکھیں
اسے موڑ مڑ جانے تک
دیکھتی رہ گئی تھیں
اور جس شام کے بعد
اس نے پھر کبھی
دن کا چہرہ نہیں دیکھا!

یہ بھی دیکھیں

اچھے دنوں کی یاد باقی ہے – صفدر سلیم سیال کی نظم

غم کرتے ہیں خوش ہوتے ہیں – قاسم یعقوب کی نظم

لاوطنی کا عفریت – نصیراحمدناصر کی نظم

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

برائے مہربانی شئیر کا آپشن استعمال کیجیے