ہماری یاد کا قصہ – ابراراحمد کی نظم

ہماری یاد کا قصہ

فون پر ہونے والی گفتگو
جو ابھی ابھی ختم ہوئی ہے
اسٹریچر پر پڑا ہوا شخص
جس پر سفید چادر ڈال دی گئی
پچھلے برس گرایا جانے والا پُل
کل شام ہونے والی تیز بارش
جس میں ہم تم بھیگتے رہے
وہ لڑکی
جس نے چلتی ہوئی گاڑی سے ہاتھ ہلایا
اور وہ بچے
جو مسکراتے ہوئے ہمارے سامنے سے گزر گئے
اب ہماری یاد کا حصہ ہیں
گلی کی نکڑ کا لیمپ
جو ہوا میں ہلتا رہتا تھا
لالٹین کی زرد روشنی
جس کے گرد
ہم دائرے میں بیٹھا کرتے تھے
اور وہ فراغت
جو ہمارے پاس موجود رہا کرتی تھی۔
ہر سچائی پر شک کرنے کی عادت
زندگی کی یکسانیت سے وابستہ اکتاہٹ
پیشے کے چناؤ کی لاحاصل بحث
اور یہ بے حقیقت وجود
جس کا بوجھ
کبھی ناقابلِ برداشت ہوا کرتا تھا
اور دھوان دیتا انجن
جو ہماری زندگی کی پٹڑیوں سے
شور مچاتا گزرا کرتا تھا
وہ فاصلے جو ہم نے طے کر لیے
سرخ رنگ کی اومنی بس
اور وہ ریستوران
جو ہمارے سفر کے عین وسط میں واقع تھا
ٹھنڈی سڑک کی چہل قدمی
جو امن اور خوشبو کی چھاؤں میں
ہر وقت ڈھکی رہتی تھی
وہ محبتیں، جو بیت گئیں
جن کے ذریعے
ہم زندگی سے ہم کنار ہوئے
اور موت سے شناسا
وہ شہر جنہیں ہم نے ترک کر دیا
اور وہ دوست جن سے ہم
آخری بار ہاتھ تک ملا چکے
ہمارے وہ دن، جو خاک میں مل گئے
اور دل میں، بہت گہری کھدی ہوئی کچھ قبریں
سب کچھ اب ہماری یاد کا حصہ ہیں

جب تک ہم خود
ایک یاد میں تبدیل نہیں ہو جاتے!!!

یہ بھی دیکھیں

اچھے دنوں کی یاد باقی ہے – صفدر سلیم سیال کی نظم

غم کرتے ہیں خوش ہوتے ہیں – قاسم یعقوب کی نظم

لاوطنی کا عفریت – نصیراحمدناصر کی نظم

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

برائے مہربانی شئیر کا آپشن استعمال کیجیے