خوف اعتبار اور انتظار – دو شعر

 

کچھ اتنا خوف کا مارا ہوا بھی پیار نہ ہو

وہ اعتبار دلائے اور اعتبار نہ ہو

 

میں گاؤں لوٹ رہا ہوں بہت دنوں کے بعد

خدا کرے کہ اسے مرا انتظار نہ ہو

(وسیم بریلوی)

یہ بھی دیکھیں

خرد اور جنوں – ایک شعر

اُداس

  وہ کون تھا جو گیا ہے اُداس کر کے مجھے وہ کون ہے کہ …

اشعار

  اِس دشتِ بلا میں کہ جہاں ہے گزر اپنا جُز سایہ غم کوئی نہیں …

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

برائے مہربانی شئیر کا آپشن استعمال کیجیے