تیری نسبت سے زمانے پہ عیاں تھے ہم بھی- عرفان ستار کی غزل

غزل

 

تیری نسبت سے زمانے پہ عیاں تھے ہم بھی

تو جو موجود نہ ہوتا تو کہاں تھے ہم بھی

 

ہم بھی حیراں ہیں بہت خود سے بچھڑ جانے پر

مستقل اپنی ہی جانب نگراں تھے ہم بھی

 

اب کہیں کیا کہ سب قصئہ پارینہ ہوا

رونقِ محفلِ شیریں سخناں تھے ہم بھی

 

تو بھی کردار کہانی سے الگ تھا کوئی

اپنے قصے میں حدیثِ دیگراں تھے ہم بھی

 

کیسی حیرت جو کہیں ذکر بھی باقی نہ رہا

تو بھی تحریر نہ تھا حرف ِ بیاں تھے ہم بھی

 

ہم کہ رکھتے تھے یقیں اپنی حقیقت سے سوا

اب گماں کرنے لگے ہیں کہ گماں تھے ہم بھی

 

رائگاں ہوتا رہا تُو بھی اپنے کم نظراں

ناشناسوں کے سبب اپنا زیاں تھے ہم بھی

 

تو بھی کس کس کے لیے گوشِ بر آواز رہا

ہم کو سنتا تو سہی نغمئہ جاں تھے ہم بھی

 

ہم نہیں ہیں تو یہاں کس نے یہ محسوس کیا

ہم یہاں تھے بھی تو ایسے کہ یہاں تھے ہم بھی؟

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

برائے مہربانی شئیر کا آپشن استعمال کیجیے