مگر یہ خواب ہیں میرے – انوارفطرت کی نظم

مگر یہ خواب ہیں میرے

میں کالی رات سے بچھڑا ہُوا
بھیگا ہوا
ٹکڑا جو ہوتا تو
تری جاگی ہوئی آنکھوں کو کجلاتا

میں بادل گر کوئی ہوتا
تو چپکے سے
جھلستی دوپہر کی اونگھتی تنہائیوں میں
تجھ کو آ لیتا
بھگوتا پیرہن تیرا

ہواہوتا
تو تیرے سر پہ
تیری اوڑھنی ٹکنے نہ دیتا
میں تیری صبح سی روشن جبیں پر
تیری راتوں سی سیہ زلفوں کی شاخوں کو
جھکا رکھتا

سمندر میں اگر ہوتا
تو تیرے مرمریں پاؤں بھگوتا
اور اپنے ساحلوں کی ریت پر
مہکے ہوئے موسم بناتا

میں ہوتا گر۔۔۔
مگر یہ خواب ہیں میرے
میں کچھ بھی تو نہیں ہوں۔

یہ بھی دیکھیں

اچھے دنوں کی یاد باقی ہے – صفدر سلیم سیال کی نظم

غم کرتے ہیں خوش ہوتے ہیں – قاسم یعقوب کی نظم

لاوطنی کا عفریت – نصیراحمدناصر کی نظم

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

برائے مہربانی شئیر کا آپشن استعمال کیجیے